حضرت خواجہ محمد مقتدیٰ امکنگی رحمۃاللہ علیہ
- Admin
- Sep 28, 2021
حضرت خواجہ محمد مقتدیٰ امکنگی رحمۃاللہ علیہ سلسلہ نقشبندیہ کے معتبر اکابرین میں شمار کیے جاتے ہیں ۔
قطب عالم خواجہ درویش "محمدؒ" نے خواب میں دیکھا کہ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم رونق افروز ہیں اور آپﷺنے اپنی آغوش مبارک میں ایک بچے کو لیا ہوا ہے۔یہ دیکھ کر قطب عالم حضرت خواجہ درویش "محمدؒ" بہت خوش ہوئے کہ وہ بچہ اُن کا اپنا فرزند "محمدمقتدیٰؒ" ہے۔اسی اثناء میں اُن کی آنکھ کھل گئی۔لیکن یہ خواب دیکھنے کے بعد اپنے لختِ جگر ،نورِ نظر پر نظرِ رحمت و شفقت بہت زیادہ کردی اور اُن کی تعلیم و تربیت میں کوئی کسر باقی نہ رہنےدی۔
قطب عالم حضرت خواجہ درویش "محمدؒ" تیس سال تک اپنے والد ماجد کے مسندِ مشیخیت پر جلوہ افروز رہے۔
قطب عالم خواجہ درویش "محمدؒ" کے گھر بخارا کے قریب "امکنہ" نامی گاؤں میں 918 ہجری بمطابق 1512ء یا 1513ء میں پیدا ہوئے۔اسی نسبت کی وجہ سے"امکنگی "کہلائے۔
آپؒ کے والد ماجد اپنے زمانے کے اولیائے کاملین میں سے تھے۔ آپؒ کی والدہ ماجدہ نہایت بزرگ خاتون تھیں۔ جب والدین صاحبِ تقویٰ ہوں اور مقربینِ بارگاہ الٰہی بھی ہوں تو اولاد پر بھی اس کے اثرات مرتب ہوتے ہیں۔
آپ ؒکی طبیعت مبارک میں انتہا درجہ کی انکسار ی تھی، چنانچہ آپؒ کے بڑھاپے کے زمانہ میں ایک شخص نے عرض کیا کہ حضور مسجد بلندی پر واقع ہے اور آپ کا گھر کافی نیچے ہے، کمزوری کے باعث آنے جانے میں کافی تکلیف ہوتی ہے، اس لئے زیادہ بہتر ہوگا کہ آپ نماز عصر، مغرب و عشاء پڑھ کر ایک ہی بار واپس جایا کریں۔
جواب میں ارشاد فرمایا جیسی نمازیں ہم پڑھتے ہیں ان میں بس مسجد میں آنا جانا ہی تو کام ہے، باقی ہماری نمازوں میں کیا رکھا ہے۔ ایک طرف آپؒ کے اوپر دید قصور کا اس قدر غلبہ، اور دوسری طرف خداداد مقبولیت کا یہ عالم کہ
والی توران عبیداللہ خان ہر روز صبح کے وقت قدم بوسی کے لئے آپ کی خدمت میں حاضر ہوتا تھا۔ برصغیر پاک و ہند خواجہ امکنگی ؒکے ممنون و مشکور ہیں کہ آپؒ نے اپنے خلیفہ محمد باقی باللہ ؒکو یہاں بھیج کر طریقہ عالیہ نقشبندیہ سے یہاں کے عوام و خواص کو فیض یاب کردیا۔
آپ ؒ نے ظاہری وباطنی علوم اپنے والد محترم سے حاصل کئے۔سیر و سلوک کی تکمیل پر ان کو خرقۂ خلافت سےبھی سرفراز فرمایا۔وصال کے بعد مسند نشین ہوئے اور خوب دین کی تبلیغ کی اور آپؒ شریعت و سنت کے نیز طریقہ عالیہ نقشبندیہ کے اصول و ضوابط کے سخت پابند تھے۔باوجود انتہائی بڑھاپے کے مہمانوں کی خدمت اپنے ہاتھ سے کرتے،خود کھانا لاتے،علما ء و فضلا، امراءو فقراء آپ سے استفادہ واستفاضہ کیلئے حاضر ہوتے۔
عبد اللہ خان والئی توران اکثر خدمت میں حاضر ہوتے۔آپ ؒفرماتے کرامت کا کوئی اعتبار نہیں اللہ والوں کے پاس خالصتاً لوجہ اللہ آنا چاہئیے۔تاکہ ان کے باطن سے حصہ ملے۔
عبداللہ خان والئ نوران نے خواب میں دیکھا کہ ایک عظیم الشان خیمہ لگا ہے جس میں
حضور سید المرسلین صلّی اللہ علیہ وآلہ وسلم رونق افروز ہیں۔ ایک بزرگ بارگاہ اقدس کے دروازے پر ہاتھ میں عصاء لئے تشریف فرما ہیں اور لوگوں کی معروضات حضور علیہ الصلوۃ والسلام کی بارگاہ میں پیش کرکے جواب لارہے ہیں۔ چنانچہ حضور اقدس صلّی اللہ علیہ وسلم نے اس بزرگ کے ہاتھ ایک تلوار مجھے ارسال فرمائی اور انہوں نے آکر میری کمر میں باندھ دی۔ اس کے بعد عبداللہ خاں کی آنکھ کھل گئی۔ اس نے بزرگ کے حلیہ مبارک کو ذہن میں محفوظ رکھا اور بزرگ کی تلاش و جستجو میں مصروف رہا۔ حتی الوسع اپنے مقربوں اور درباریوں سے اس بزرگ کا سراپا بیان کرکے ان کے متعلق دریافت کرتا رہا۔ کافی عرصہ کے بعد اس کا ایک مصاحب حضرت خواجہ امکنگی علیہ الرحمۃ کی بارگاہ میں حاضر ہوا تو اس نے آپ ؒکو بادشاہ کے بتائے ہوئے حلیہ کے مطابق پایا۔ وہ فورًا وہاں سے عبداللہ خاں کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا کہ اس حلیہ کے بزرگ جن کو آپ نے بیان فرمایا حضرت مولانا خواجگی امکنگی ؒہیں۔ بادشاہ بڑا خوش ہوا اور بڑے شوق سے ہدایا و تحائف لے کر حاضر خدمت ہوا، آپؒ کو بعینہ وہی پایا جو خواب میں دیکھا تھا۔ بادشاہ نے نہایت تواضع و انکساری کا اظہار فرمایا اور نذرانہ قبول کرنے کیلئے التماس کی، مگر آپ ؒنے قبول نہ فرمایا بلکہ ارشاد فرمایا
فقر کی حلاوت و شیرینی، نامرادی و قناعت میں ہے۔ بادشاہ نے آیہ شریفہ پیش کی(ترجمہ۔ حکم مانو اللہ اور اس کے رسول کا اور ان کا جو تم میں اختیار والے ہیں) تب آپؒ نے مجبورًا قبول فرمالیا۔ بادشاہ وقت ہر روز صبح کے وقت نہایت عاجزی و انکساری کے ساتھ آپ کی قدم بوسی کے لئے حاضر ہوا کرتا تھا۔
آپ ؒعزیمت کے بڑے پابند تھے اور آپؒ کی کوئی خانقاہ نہ تھی۔ آپ ؒکو انتہا درجہ کی تمکین حاصل تھی۔ آپؒ کی مجلس میں رقص و سماع کی گنجائش نہ تھی۔ ایک مرتبہ بعض مخلصین نے درخواست کی کہ کیا حرج ہے اگر آپ ؒکی مبارک مجلس میں مثنوی مولانا روم پڑھی جائے۔ آپ ؒنے ارشاد فرمایا کہ مشکوۃ شریف کی چند حدیثیں پڑھی جایا کریں، بلاشبہ احادیث کا پڑھا جانا زیادہ بہتر ہے۔
ایک بارتین طالب علم مختلف ارادوں سے آپ ؒکی خدمت میں حاضر ہوئے۔ ایک نے نیت کی اگر حضرت فلاں قسم کا کھانا کھائیں تو بیشک صاحب کرامت ہیں، دوسرے نے دل میں سوچا کہ اگر فلاں قسم کا میوہ عنایت فرمائیں تو ولئ کامل ہیں، تیسرے نے خیال کیا کہ اگر فلاں لڑکے کو مجلس میں حاضر کردیں تو صاحب خوارق ہیں۔ حضرت اقدس ؒنے پہلے دونوں کو تو ان کے خیال کے مطابق عطا فرمادیا، مگر تیسرے کو فرمایا کہ درویشوں نے جو کمالات حاصل کئے ہیں وہ صاحبِ شریعت علیہ السلام کی اتباع سے حاصل کئے ہیں، لہٰذا درویشوں سے کوئی کام خلاف شریعت صادر نہیں ہوسکتا۔ اس کے بعد تینوں سے مخاطب ہوکر فرمایا کہ امر مباح کی نیت سے بھی درویشوں کے پاس نہیں آنا چاہیئے کیوکہ بسا اوقات وہ ایسے کاموں کی طرف توجہ نہیں کرتے اور آنے والے بداعتقاد ہوکر ان کی صحبت کی برکات سے محروم رہ جاتے ہیں۔ فقراء کے ہاں کرامتوں کا کوئی اعتبار نہیں، ان کے پاس خالصتاًلوجہ اللہ آنا چاہیئے تاکہ فیض باطنی کا کچھ حصہ مل سکے۔
عبداللہ خاں کی طرف سے ہرات کے حاکم سلطان کے چچا نے جب تراکمہ کے ہاتھوں شہادت پائی تو اس کا بھائی باقی خان اپنے والد اور تمام بھتیجوں کو لے کر ماوراء النہر کی طرف چلا گیا۔ پیر محمد خان نے سمرقند کی حکومت ان لوگوں کے سپرد کردی، لیکن کچھ دن بعد پیر محمد خاں کے دل میں ان لوگوں کی طرف سے بدگمانی اور ایک گونہ خوف پیدا ہوگیا۔ چنانچہ اس نے پچاس ہزار سواروں کے ساتھ سمرقند پر پڑھائی کردی۔ حاکم سمرقند باقی محمد خاں اور اس کے بھتیجوں نے حضرت مولانا امکنگی علیہ الرحمۃ کو بیچ میں ڈال کر رحم کی درخواست کی، اس پر آپ ؒنے پیر محمد خاں کے پاس تشریف لے جاکر اسے نصیحت کی ۔
مگر وہ کسی صورت بھی صلح و آشتی پر رضامند نہ ہوا، اس پر آپؒ خفا ہوکر واپس آگئے اور باقی محمد خاں سے فرمایا کہ تو دل سے تائب ہوجا کہ آئندہ خلقِ خدا پر کوئی ظلم و تشدد نہ کرے گا۔ اس نے آپؒ سے عہد کیا اور سچی توبہ کی تو آپ ؒنے فرمایا جاؤ جاکر حملہ کرو، ماوراء النہر کی سلطنت تجھے مبارک ہو۔ یہ فرماکر باقی خاں کی پشت پر دست شفقت رکھا اور اپنی تلوار مبارک اس کی کمر پر باندھ کر روانہ کیا۔ اس کے پیچھے پیچھے آپؒ بھی درویشوں کی ایک جماعت کے ساتھ روانہ ہوئے اور شہر کے کنارے ایک پرانی مسجد میں قبلہ رو ہوکر مراقب ہو بیٹھے۔ بار بار سر اقدس اٹھاکر پوچھتے تھے کہ کیا خبر ہے۔ دریں اثنا یہ خبر آئی کہ باقی محمد خاں نے فتح پائی اور پیر محمد خان مارا گیا ہے۔ اس پر آپؒ مراقبہ سے اٹھ کر اپنی قیام گاہ پر تشریف لے آئے۔
ایک رات حضرت مخدومی خواجگی ؒکسی جگہ تشریف لے جارہے تھے۔ آپ ؒکا ایک ارادت مند ننگے پیر چند خدام کے ہمراہ ساتھ ہی چل رہا تھا کہ اتفاقًا اس کے پاؤں میں کانٹا چبھا۔ اس کے دل میں خیال آیا کہ کیا اچھا ہو اگر حضرت کی اس سلسلہ میں مجھ پر کچھ عنایت ہو۔ یہ خیال کیا ہی تھا کہ حضرت مولانا اسی وقت اس کی طرف متوجہ ہوئے اور فرمایا اے بھائی جب تک پاؤں میں کانٹا نہ چبھے پھول ہاتھ نہیں آتا۔
آپؒ کی عمر مبارک جب نوے سال کو پہنچی تو آپؒ نے اپنے خلیفۂ اعظم حضرت خواجہ محمد باقی باللہ قدس سرہ کو خط لکھا، جس میں آپؒ نے بعد اظہار و اشتیاق دو شعر لکھے جن کا ترجمہ یہ ہے،
مجھے ہر گھڑی موت یاد آتی ہے نہ جانے کیا پیش آنے والا ہے۔
مجھے ہردم وصل خدا رہے، اس کے بعد جو کچھ پیش آنا ہے پیش آئے۔
اس خط کے پہنچنے کے کچھ دن بعد ہی آپ ؒکے وصال کی خبر بھی آگئی۔ آپؒ کا وصال مبارک ۲۲ شعبان کو ۱۰۰۸ھ بمطابق1600ء"امکنہ" میں نوے سال کی عمر مبارکہ میں ہوا۔ وہیں پر آپؒ کا مزار مبارک مرجع خاص و عام ہے۔
برصغیر پاک و ہند کی سرزمین آپ ؒکی احسان مند ہے اور تاقیامت آپ ؒکے لئے دعاگو ہے کہ آپؒ نے اپنے خلیفۂ اعظم حضرت خواجہ محمد باقی باللہ قدس سرہ کو یہاں بھیجا تاکہ روحانیت کی پیاسی یہ سرزمین بھی سلسلۂ عالیہ نقشبندیہ کے فیوض و برکات سے مستفید و مستفیض ہو۔
استفادہ از : 2010ء جماعت اصلاح المسلمین۔